حُسن کی دیوی

وہ حُسن کی دیوی ہے مگر دور بہت ہے

چہرے پہ تو پردہ ہے مگر نور بہت ہے


ہر روز ہی جاتا ہوں گلی میں اس کی

غصّے سے گزر جاتی ہے مغرور بہت ہے


آنکھوں میں اسکی ہے عجب سی کشش

خوش رنگ جوانی کا فتور  بہت ہے


اب ہے لگتا کہ چرانے میں بھی دل کو میرے

ان ناگنی زلفوں کا قصور بہت ہے


دل اسکا بھی کرتا ہے تجھے ملنے کو رضوی

پر زمانے کے ہاتھوں وہ مجبور بہت ہے


رضوان علی رضوی

Comments