کچھ تو ہوا بھی سرد تھی


 

کچھ تو ہوا بھی سرد تھی، کچھ تھا تیرا خیال بھی

دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال بھی


بات وہ آدھی رات کی، رات وہ پورے چاند کی

چاند بھی عین چیت کا، اس پہ تیرا جمال بھی


سب سے نظر بچا کے وہ مجھ کو کچھ ایسے دیکھتا

ایک بار تو رک گئی گردشِ ماہ و سال بھی


دل تو چمک سکے گا کیا پھر بھی ترش کے دیکھ لیں

شیشہ گرانِ شہر کے ہاتھ کا یہ کمال بھی


اس کو نہ پا سکے تھے جب دل کا عجیب حال تھا

اب جو پلٹ کے دیکھئیے بات تھی کچھ محال بھی


میری طلب تھا ایک شخص وہ جو نہیں ملا تو پھر

ہاتھ دعا سے یوں گرا بھول گیا سوال بھی


شام کی نا سمجھ ہوا پوچھ رہی ہے اک پتا

موجِ ہواۓ کوۓ یار کچھ تو میرا خیال بھی


Comments