ہواؤں سے سرگوشیاں کرتے کرتے



ہواؤں سے سرگوشیاں کرتے کرتے
تاروں بھرا آسماں تکتے تکتے
تیری یاد میں کھو گئے آج پھر
چادر اندھیرے کی ہم اوڑھ کر

جگنو کو ہم نے کچھ ایسا جلایا
تیرے حسن کو تتلیوں سے ملایا
تیرے حسن پر شاعری ہم نے کی
آج ساری خدائی سے منہ موڑ کر

چندا کے ساتھ ہم نے محفل لگائی
کہ سہہ نہ سکے ہم صنم یہ جدائی
گیا ہم سے تو بھی خفا ہو کر ایسے
جیسے تارا گیا آسماں چھوڑ کر

تیرے عشق میں انتہا کو گۓ ہم
دل و جان سے ہیں فدا ہوگۓ ہم
نہیں بھولے ہم آج بھی ساری قسمیں
اور چلا تو گیا وعدے سب توڑ کر

رضوان علی رضوی

Comments